تاجکستان
تاجِکِسْتان (تاجک: Тоҷикистон، روسی: Таджикистан) وسط ایشیا کا ایک خشکی میں گھرا ہوا (landlocked) ملک ہے۔ اس کی سرحدیں جنوب میں افغانستان، مغرب میں ازبکستان، شمال میں کرغیزستان اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ یہ تاجک نسل کے باشندوں کا وطن ہے، جن کی ثقافتی و تاریخی جڑیں ایران میں پیوست ہیں اور یہ فارسی سے انتہائی قربت رکھنے والی زبان تاجک بولتے ہیں۔ سامانی سلطنت کا گہوارہ رہنے والی یہ سرزمین 20 ویں صدی میں سوویت اتحاد کی باضابطہ جمہوریہ رہی جسے تاجیک سوویت اشتراکی جمہوریہ (Tajik Soviet Socialist Republic) کہا جاتا تھا۔
جَمْہُورِیَۂ تاجِکِسْتان Ҷумҳурии Тоҷикистон Республика Таджикистан | |
---|---|
پرچم | جمہوریہ تاجکستان کا ریاستی نشان |
ترانہ: سرود ملی تاجکستان | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 38°35′00″N 71°22′00″E / 38.583333°N 71.366667°E [1] |
بلند مقام | کوہ اسماعیل سامانی (7495 میٹر ) |
پست مقام | دریائے سیحوں (300 میٹر ) |
رقبہ | 143100 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | دوشنبہ |
سرکاری زبان | تاجک زبان ، روسی |
آبادی | 9504000 (1 جنوری 2021) |
|
4696898 (2019)[2] 4801489 (2020)[2] 4906143 (2021)[2] 5008732 (2022)[2] سانچہ:مسافة |
|
4640105 (2019)[2] 4741717 (2020)[2] 4843921 (2021)[2] 4944055 (2022)[2] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | صدارتی نظام |
اعلی ترین منصب | ایمانعلی رحمان |
سربراہ حکومت | قاہر رسول زادہ (23 نومبر 2013–) |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 9 ستمبر 1991 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | 18 سال |
شرح بے روزگاری | 11 فیصد (2014)[3] |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+05:00 |
ٹریفک سمت | دائیں [4] |
ڈومین نیم | tj. |
آیزو 3166-1 الفا-2 | TJ |
بین الاقوامی فون کوڈ | +992 |
درستی - ترمیم |
سوویت اتحاد سے آزادی ملنے کے بعد تاجیکستان 1992ء سے 1997ء تک زبردست خانہ جنگی کا شکار رہا۔ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سیاسی استحکام، غیر ملکی امداد اور ملک کے دو بڑے قدرتی ذرائع کپاس اور المونیم نے ملکی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا۔
نام
ترمیمتاجکستان کا مطلب ہے "تاجکوں کا وطن" جیسا کہ ایران اور اس سے ملحقہ بیشتر ممالک کے ناموں کے ساتھ "استان" لگتا ہے جیسے پاکستان، افغانستان وغیرہ۔
تاریخ
ترمیمیہ سرزمین، جہاں اب تاجکستان واقع ہے، 4 ہزار قبل مسیح سے مستقل آباد ہے۔ یہ علاقہ تاریخ میں مختلف سلطنتوں کے زیر نگیں رہا ہے۔ قبل از مسیح میں یہ علاقہ باختر کی سلطنت کا حصہ تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں اسلام یہاں بھی داخل ہوا۔ عباسی دور کے آخر میں جب سلطنت اسلامیہ کے مختلف حصوں میں نئی ریاستیں وجود میں آئیں تو اولین ریاستوں میں سے ایک ریاست سامانی سلطنت یہاں وجود میں آئی تھی جس نے سمرقند اور بخارا کے شہر بنائے جو تاجکوں کے ثقافتی مراکز بنے۔ بعد ازاں منگولوں نے وسط ایشیا پر عارضی طور پر قبضہ کیا۔ سلطنت روس کا حصہ بننے سے پہلے یہ علاقہ امارت بخارا میں شامل تھا۔
19 ویں صدی میں سلطنت روس نے وسط ایشیا پر اپنے پنجے گاڑنا شروع کیے اور تاجکستان پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1917ء میں زار روس کی سلطنت کے خاتمے کے بعد وسط ایشیا میں بسماچی تحریک کا آغاز ہوا جنھوں نے آزادی کے لیے سرخ افواج کے خلاف زبردست مزاحمت کی۔ لیکن اس تحریک کو کچل دیا گیا اور یہ علاقہ سوویت اتحاد کا حصہ بن گیا۔ اشتراکی دور میں یہاں مذہب بالخصوص اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا اور مساجد و عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا۔
قیام جمہوریہ
ترمیم1924ء میں تاجک خود مختار اشتراکی جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا گیا جو ازبکستان کا حصہ تھی لیکن 1929ء میں تاجک سوویت اشتراکی جمہوریہ کو دستوری جمہوریہ کے طور پر الگ کیا گیا۔ ماسکو نے وسط ایشیا کی ریاستوں میں سب سے کم تاجکستان پر توجہ دی اور یہ طرز زندگی، تعلیم اور صنعت میں وسط ایشیا کی تمام ریاستوں میں سب سے پیچھے رہی۔ 1970ء کی دہائی میں مختلف نظریات کی حامل خفیہ اسلامی جماعتیں قائم ہوئیں اور 1980ء کی دہائی کے اواخر میں تاجک قوم پرستوں نے اضافی حقوق دینے کا مطالبہ کیا۔ 1990ء تک علاقے میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ پیدا نہیں ہوئی۔ اگلے ہی سال سوویت اتحاد ٹوٹ گیا اور تاجکستان نے آزادی کا اعلان کر دیا۔
آزادی کے فوراً بعد ملک بد ترین خانہ جنگی کا شکار ہوا جس میں مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے قبائل آمنے سامنے ہو گئے۔ اس عہد میں غیر مسلم آبادی، جو زیادہ تر روسیوں اور یہودیوں پر مشتمل تھی، ایذا رسانی کے خوف، بڑھتی ہوئی غربت اور مغرب میں بہتر اقتصادی مواقع ملنے کے باعث ملک سے فرار ہو گئی۔ 1992ء میں امام علی رحمانوف بر سر اقتدار آئے اور اب تک ملک کے حکمران ہیں۔ 1997ء میں رحمانوف اور حزب مخالف کی جماعتوں (تاجک متحدہ حزب اختلاف) کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ 1999ء میں پر امن انتخابات کا انعقاد ہوا اور رحمانوف ایک مرتبہ پھر ملک کے صدر قرار پائے۔ حزب مخالف نے ان انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دیا۔
افغانستان کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لیے روسی افواج موسم گرما 2005ء تک ملک میں موجود رہیں۔ 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد سے امریکی و فرانسیسی افواج اس ملک میں موجود ہیں۔
جغرافیہ
ترمیمتاجکستان چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے اور رقبے کے لحاظ سے وسط ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ سلسلہ کوہ پامیر اس ملک کے بیشتر حصے پر پھیلا ہوا ہے اور ملک کا پچاس فیصد سے زائد کا علاقہ سطح سمندر سے 3 ہزار میٹر (تقریباً 10 ہزار فٹ) سے اونچا ہے۔ کم بلند زمین کا واحد علاقہ شمال میں وادی فرغانہ اور جنوبی کافرنگان اور وخش کی وادیاں ہیں جو آمو دریا کو تشکیل دیتی ہیں اور یہاں بارشیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ دوشنبہ جنوبی ڈھلوانوں پر وادی کافرنگان کے اوپر واقع ہے۔
آمو دریا اور پنج دریا افغانستان کے ساتھ سرحد تشکیل دیتے ہیں۔ کوہ اسماعیل سامانی (7495 میٹر)، کوہ آزادی (7174 میٹر) اور کوہ ابن سینا (6974 میٹر) ملک کی تین بڑی چوٹیاں ہیں۔
انتظامی تقسیم
ترمیمملک مختلف خطوں یا صوبوں میں تقسیم ہے جنہیں ولایت (تاجک: ولویت) کہا جاتا ہے۔
1۔ سغد ولایتی (خوقند)
2۔ دوشنبہ میں قومی حکومت کے زیر انتظام علاقہ، جن میں کوئی ولایتی سطح کی انتظامی تقسیم نہیں۔
3۔ خطلون ولایتی
4۔ ولایتی مختاری کوہستانی بدخشاں (Gorno-Badakhshan Autonomous Province)
بیرونی علاقے
ترمیمتاجکستان کے تین بیرونی علاقے (exclave) بھی ہیں جو وادی فرغانہ میں واقع ہیں جہاں کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان آپس میں ملتے ہیں۔ ان بیرونی علاقوں میں سب سے بڑا وروخ ہے جس کی آبادی 23 سے 29 ہزار ہے جس میں سے 95 فیصد تاجک اور 5 فیصد کرغز ہیں۔ یہ علاقہ کرغز علاقے میں اسفارا سے 45 کلومیٹر جنوب میں دریائے کرفشیں کے کنارے واقع ہے۔ دونوں بیرونی علاقہ کرغزستان میں کائراغچ کے ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی آبادی ہے جبکہ آخری سروان کا کاؤں ہے جو ایک زمین کا ایک چھوٹا سا قطعہ ہے (15 کلومیٹر طویل اور ایک کلومیٹر عریض) جو انگرین سے خوقند کے درمیانی راستے پر واقع ہے۔
تاجکستان میں کوئی اندرونی علاقہ (enclave) نہیں۔
سیاست
ترمیمآزادی کے فوراً بعد تاجکستان مختلف فریقین کے درمیان لڑائی کے باعث خانہ جنگی کا شکار بن گیا، جنہیں مبینہ طور پر ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ خانہ جنگی کے دوران تمام 4 لاکھ روسی باشندے، سوائے 25 ہزار کے، اس علاقے سے روس چلے گئے۔ 1997ء میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور 1999ء میں پر امن انتخابات کے ذریعے مرکزی حکومت قائم ہوئی۔
تاجکستان باضابطہ طور پر ایک جمہوریہ ہے جہاں صدر اور پارلیمان منتخب کرنے کے لیے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ آخری انتخابات 2005ء میں ہوئے اور گذشتہ تمام انتخابات کی طرح ان انتخابات کو بھی بین الاقوامی مبصرین نے غیر منصفانہ قرار دیا۔
حزب اختلاف کی کئی اہم جماعتوں نے 6 نومبر 2006ء کو ہونے والے انتخابات کا مقاطعہ کیا جن میں 23 ہزار اراکین پر مشتمل اسلامی نشاۃ ثانیہ پارٹی بھی شامل تھی۔ تاجکستان اس وقت تک وسط ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں متحرک حزب اختلاف موجود ہے۔ پارلیمان میں حزب اختلاف کے اراکین کا بسا اوقات حکومتی اراکین سے تصادم ہوتا رہتا ہے تاہم اس سے بڑے پیمانے پر کوئی عدم استحکام پیدا نہیں ہوا۔
معیشت
ترمیمتاجکستان اشتراکی عہد ہی سے دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ایک غریب ریاست تھی اور آزادی کے فوری بعد خانہ جنگی نے اس کی معیشت کو لب گور پہنچا دیا۔ 2000ء میں بحالی کے منصوبوں کی مدد کے کا سب سے اہم ذریعہ بین الاقوامی امداد ہی تھی۔ بین الاقوامی امداد نے خطے میں غذائی پیداوار کی مسلسل کمی اور قحط کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ 21 اگست 2001ء کو صلیب احمر نے اعلان کیا کہ قحط تاجکستان کو نشانہ بنا رہا ہے اور تاجکستان اور ازبکستان کے لیے بین الاقوامی امداد کا مطالبہ کیا۔
خانہ جنگی کے بعد تاجکستان معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے 2004ء کے درمیان تاجکستان کے جی ڈی پی میں 9.6 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔
تا جکستان کی معیشت میں آمدنی کے بنیادی ذرائع ایلومینیم کی پیداوار،کپاس کی کاشت اور بیرون ملک مقیم تاجک باشندوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر ہیں۔ تاجکستان کے جی ڈی پی کا تقریباً 47 فیصد حصہ بیرون ملک سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے آتا ہے۔ بیرون ملک مقیم باشندوں میں 90 فیصد روس میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ملک کا صرف 7فیصد رقبہ قابل کاشت ہے اور کپاس سب سے اہم زرعی پیداوار ہے۔ اس کے علاوہ اجناس ،پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ تاجکستان اپنی خوراک کی ضروریات کا تقریباً 60 فیصد حصہ درآمد کرتا ہے۔ معدنیات میں سونا،چاندی،یورینیم اور ایلومینیم زیادہ اہم ہیں۔ ایلومینیم کی صنعت حکومتی تحویل میں ہے اور تاجکستان کا ایلومینیم پلانٹ وسطی ایشیا میں سب سے بڑا پلانٹ ہے۔
آبادیات
ترمیمتاجکستان کی آبادی جولائی 2006ء کے اندازوں کے مطابق 7،320،815 ہے۔ سب سے بڑا نسلی گروہ تاجک ہے، جبکہ ازبک باشندوں کی بڑی تعداد بھی تاجکستان میں رہائش پزیر ہے۔ روسیوں کی تھوڑی سی آبادی بھی یہاں رہتی ہے جو ہجرت کے باعث کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملک کی باضابطہ زبان تاجک فارسی ہے جبکہ کاروباری و حکومتی معاملات میں روسی زبان بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ غربت کے باوجود تاجکستان میں خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے اور تقریباً 98 فیصد آبادی لکھنے و پڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک کی اکثر آبادی اسلام کی پیروی کرتی ہے جن میں سنی بہت بڑی اکثریت میں ہیں جبکہ شیعہ مختصر اقلیت میں ہیں۔ بخاری یہودی دوسری صدی قبل مسیح سے اس علاقے میں رہتے ہیں تاہم آج ان کی تعداد چند سو ہی ہے۔
مذہب
ترمیماسلام، پورے وسطی ایشیا میں ساتویں صدی عیسوی سے، جب سے عربوں کے ذریعے یہاں اسلام پہنچا، اہم مذہب ہے۔ اسلام تب سے تاجکی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے تاجکستان ایک سیکولر ملک ہے،[5] سوویت دور کے دوران میں، معاشرے کو مذہب بے زار کرنے کی کوششوں کو بڑی حد تک ناکام ملی اور سوویت دور کے بعد مذہبی رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ۔ تاجکستان کے مسلمانوں کی اکثریت سنی اسلام پر عمل کرتی ہے اور اسماعیلی نزارے شیعیون کی بھی ایک معمولی تعداد موجوھ ہے۔ تاجکستان میں دوسرا بڑا مذہب روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا ہے، اگرچہ 1990ء کی دہائی کی ابتدا میں ان کی تعداد کم ہوئی۔ کچھ دیگر مسیحی فرقے بھی معمولی تعداد میں موجود ہیں جب کہ یہودیوں کی بھی مختصر تعداد ہے۔[6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "صفحہ تاجکستان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2024ء
- ^ ا ب ناشر: عالمی بینک ڈیٹابیس
- ↑ http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
- ↑ http://chartsbin.com/view/edr
- ↑ Tajikistan Constitution
- ↑ http://lcweb2.loc.gov/frd/cs/tjtoc.html This article incorporates text from this source, which is in the دائرہ عام۔
ویکی ذخائر پر تاجکستان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
ویکی ذخائر پر تاجکستان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |