بنو حفص
بنو حفص کا مورث اعلیٰ تحریک موحدین کے بانی ابن تومرت کے ساتھیوں میں سے ایک شیخ ابو حفص عمر بن یحییٰ تھا۔ اس کے بیٹے ابو محمد عبدالواحد نے 1207ء تا 1221ء افریقیہ (موجودہ تیونس) کے والی کی حیثيت سے حکومت کی۔ 1228ء میں اس کے پوتے ابو ذکریا یحییٰ کو افریقیہ کا والی مقرر کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب موحدین کا زوال شروع ہو گیا تھا۔ اس لیے ابو ذکریا یحییٰ نے دو سال بعد 1229ء میں آزادی کا اعلان کر دیا اور امیر کا لقب اختیار کی۔ یہی ابو ذکریا یحییٰ 1228ء تا 1249ء بنو حفص کی آزاد مملکت کا بانی ہے۔ بنو حفص کا دار الحکومت شہر تونس تھا اور ان کی حکومت شہر طرابلس سے الجزائر کے وسطی حصے تک پھیلی ہوئی تھی اور کبھی کبھی تلمسان کا شہر بھی ان کی حکومت کے تحت آجاتا تھا۔
دولت حفصیہ تین سو سال کی مدت میں دو مرتبہ عروج و زوال کے مراحل سے گذری۔ عروج کا پہلا دور 627ھ سے 694ھ تک اور دوسرا دور 772ھ سے 893ھ تک کے زمانے پر مشتمل ہے۔
پہلے دور میں ابو ذکریا یحییٰ، جو بانئ خاندان تھا اور اس کا لڑکا ابو عبداللہ محمد قابل حکمران ہوئے ہیں۔ ابو عبد اللہ محمد نے خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا اور 1283ء میں مستنصر باللہ کا لقب اختیار کیا۔ اس کے دور میں حفصی سلطنت کی حدود مشرق میں طرابلس تک پہنچ گئیں۔ علم فقہ اور فن تعمیر کو فروغ ہوا اور یورپ کے ملکوں سے تجارتی تعلقات قائم ہوئے۔ مستنصر کے بعد چند سال بے امنی رہی لیکن اس کے بعد پانچویں حکمران ابو حفص عمر اول (1284ء تا 1295ء) نے پھر مستحکم حکومت قائم کرلی۔
ابو حفص عمر اول متقی اور امن پسند حکمران تھا۔ اس کے زمانے میں کثیر تعداد میں مساجد و مدارس تعمیر ہوئے۔
ابو حفص کے انتقال کے بعد حکومت طویل عرصے تک خانہ جنگی اور بے امنی کا شکار رہی لیکن آخر میں سولہویں سلطان ابو العباس احمد (1370ء تا 1394ء) نے گرتی ہوئی سلطنت کو ایک بار پھر سنبھالا، بغاوتوں کو فرو کیا اور امن قائم کیا اور اس طرح بنو حفص کے دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ ابو العباس احمد کے لڑکے ابو فارس (1394ء تا 1434ء) نے سلطنت کو طرابلس سے الجزائر تک وسعت دے کر سابقہ حدود پر قائم کر دیا۔ آخر میں تلمسان کے بنو عبدالوداد کو بھی اطاعت پر مجبور کر دیا۔ ابو فارس منصف مزاج، دیندار اور ہر دلعزیز حکمران تھا۔ اس نے خلاف شرع محاصل منسوخ کر دیے اور جہاد کے لیے رضا کارانہ نظام تشکیل دیا۔
ابو عمرو عثمان (1435ء تا 1488ء) بنو حفص کا آخری طاقتور اور قابل حکمران تھا۔ وہ پاکباز اور عادل تھا۔ اس نے آب رسانی کے نظام کو ترقی دی۔ تیونس میں امن و امان کا وہ طویل صد سالہ دور جو ابو فارس کی تخت نشینی سے شروع ہوا تھا، ابو عمرو عثمان کے بعد ختم ہو گیا۔ بنو حفص کے دور زوال میں اسپین کی حکومت نے، جو مسلمانوں کو اندلس سے نکالنے کے بعد ایک بڑی عالمی طاقت بن گئی تھی، 1510ء کے بعد افریقہ کے معاملات میں بھی دخل دینا شروع کر دیا اور الجزائر اور تیونس کے کئی حصوں پر قبضہ کر لیا اور 1534ء کے بعد بنو حفص کو اپنا باجگذار بنا لیا لیکن اس اقتدار کو مشرق سے آنے والے عثمانی ترکوں نے چیلنج کر دیا۔ ایک طویل مدت تک ترکوں اور ہسپانویوں کے درمیان لڑائیاں جاری رہیں، جس میں آخر کار ترک کامیاب ہو گئے۔ 1553ء میں ترک امیر البحر خیر الدین پاشا باربروسا نے الجزائر فتح کر لیا اور 1574ء میں ایک دوسرے امیر البحر اولوج پاشا نے تیونس کو فتح کرکے حفصی خاندان کی حکومت کاخاتمہ کر دیا اور تیونس کو اس کو سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ بنا دیا۔
بنو حفص کا دور تیونس کی ترقی اور خوش حالی کا عظیم دور تھا۔ ان کے زمانے میں تیونس میں شاندار عمارات تعمیر کی گئیں جن میں شمالی افریقہ کا قدیم مدرسہ جامع زیتونیہ بھی شامل ہے۔ مصر و شام میں مملوکوں اور وسط ایشیا میں تیموریوں کے دور کی طرح بنو حفص کا دور تیونس کی قدیم تاریخ کا آخری شاندار دور تھا۔ عظیم مؤرخ ابن خلدون تیونس ہی میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی تاریخ تلمسان میں لکھی تھی۔
حکمران
[ترمیم]- ابو ذکریا یحییٰ بن حفص
- ابو عبداللہ محمد المستنصر
- ابو ذکریا یحییٰ الواثق
- ابو اسحاق ابراہیم
- ابو حفص عمر
- ابو عبداللہ محمد
- ابو یحییٰ ابوبکر الشہید
- ابوالبقاء خالد
- ابو یحییٰ ذکریا ابن اللحیانی
- ابو دربہ
- ابو یحیی ابو بکر
- ابو حفص عمر الثانی
- ابو العباس احمد الفضل
- ابو اسحاق ابراہیم الثانی
- ابو العباس احمد
- ابو فارس عبدالعزیز
- ابو عبداللہ محمد المسنتصر
- ابو عمر عثمان
- ابو ذکریا یحییٰ الثالث
- عبدالمؤمن حفصی
- ابو یحیی ذکریا الثانی
- ابو عبداللہ محمد الخامس
- مولائے الحسن
- احمد احمیدہ
- مولائے محمد
ویکی ذخائر پر بنو حفص سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |