رامانج
رامانج | |
---|---|
فائل:Ramanujacharya.jpg | |
ذاتی | |
پیدائش | الیالور 1017ء شری پرم بدر، تمل ناڈو، بھارت |
وفات | 1137ء |
مذہب | ہندومت |
فلسفہ | وششٹادویت |
مرتبہ | |
ادبی کام | روایت کی رو سے 9 سنسکرت کتب، بشمول ویدارتھ سنگراہم، شری بھشیم، گیتا بھشیم |
سوامی رامانج یا رامانج آچاریہ جنوبی ہند کا (پہلا آدی شنکر تھا) دوسرا ہندو مصلح تھا۔ مدراس کے علاقے میں 1016ء یا 1017ء کو پیدا ہوا، شنکر آچاریہ کے شاگردوں سے علم حاصل کیا مگر اُن سے اختلافِ رائے کی بنا پر الگ ہو گیا۔ وہ مایا کے نظریہ کا مخالف تھا۔ توحیدِ الٰہی کا شدت سے قائل تھا اور خدا کو اچھی صفات کا حامل بتاتا تھا، روح و مادہ کو مخلوق ٹھہراتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہندو مذہب کے اوتار کے عقیدے کا بھی قائل تھا اور ذات پات کے نظریے کو مانتا تھا مگر شودروں کے حقوق مثلاً حقوقِ عبادت کا بھی داعی تھا۔ اُس نے توحید کے ساتھ رواداری، مساوات اور بت پرستی کی شدید مخالفت کو اپنا مذہب قرار دیا۔ نجات کے لیے عبادت و ریاضت کو لازم ٹھہرایا۔ اس کی تعلیمات میں تناسخ وغیرہ ہندو عقائد کا ذکر نہیں ملتا۔[1]
ہندومت کا ممتاز فلسفی اور ماہرِ الٰہیات رامانج ویدانت نامی سلسلۂ فکر پر کافی گہرے اثرات رکھتا ہے۔ اُس کا فلسفہ آدی شنکر کی موحدانہ تعلیمات کا ایک تنقیدی عمل ہے اور اسے ”وششٹادویت“ (غیر ترمیمی ثنائیت) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ابتدائی زندگی
[ترمیم]رامانج جنوبی ہندوستان کی ریاست تمل ناڈو تِروپتی کے مراعات یافتہ براہمن خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کے والد بزرگوار کا نام اسوری کیشب سومیاجی اور والدہ کانٹی ماٹی تھا۔ اُس کی زندگی کے بارے میں معلومات کا واحد مآخذ افسانوی سوانحات ہیں جن میں تخیل نے تاریخی تفصیلات کو چھپا رکھا ہے۔ روایت کے مطابق رامانج نے چھوٹی عمر میں ہی دینیاتی معاملات میں دلچسپی رکھا شروع کر دی تھی اور اسے پڑھنے کے لیے کانچی بھیجا گیا۔ وہاں اس کا استاد یادو پرکاش شنکر آچاریہ کے توحیدی (ادویت) کا پیروکار تھا۔ رامانج کی مذہبی فطرت اِس مسلک کے ساتھ میل نہیں کھاتی تھی جس میں شخصی خدا کے لیے کوئی جگہ نہ تھی اور اسی اختلاف کی بنا پر وہ سری نگم کے جمنا منی کا چیلا ہو گیا۔ اس کی وفات کے بعد اس جانشین مقرر ہوا۔ کئی سال قیام کر کے اپنے نظریات اور فلسفہ پر کتب تصنیف کیں۔
اس کے بعد اس نے اپنے نظریات کی تبلیغ کے لیے ملک میں دورے کیے، علمائے ہنود سے بخشیں کیں اور ان کو ہم خیال بنایا۔ سری نگم کا بادشاہ اس کی جان کا دشمن بن گیا۔ رامانج نے جان بچا کر کرناٹک کے بادشاہ کی پناہ لی۔ یہاں کا بادشاہ جین تھا۔ رامانج نے کوشش سے اسے ویشنو مت کا پیرو بنا لیا۔ بادشاہ نے جادب کے مقام پر ایک مندر تعمیر کیا، جس میں رامانج بارہ برس مقیم رہا اور اپنے نظریات کی اشاعت کرتا رہا۔
نظریات
[ترمیم]رامانج حقیقت میں بھگتی تحریک کا بانی ہے۔ اس نے آچاریہ آدی شنکر کے ”مایا“ کے نظریے کی مخالفت کی۔ آدی شنکر خدا کی صفات کا قائل نہ تھا۔ رامانج نے کہا خدا تمام صفات حسنہ سے متصف ہے۔ اور اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں۔ وہ قادر مطلق ہے۔ وہی روح اور مادہ کو پیدا کرنے والا ہے اور سب اسی کی ہستی کے محتاج ہیں۔ اس نے خدا کے اوتاروں کو بھی تسلیم کیا ہے۔
رامانج ذاتوں کی پرانی تقسیم کا قائل تھا، لیکن شودروں اور چنڈالوں کے حقِ عبادت کو تسلیم کیا اور ان کی عبادت کے لیے مندر کھول دیے۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ پروفیسر میاں منظور احمد، تقابلِ ادیان و مذاہب، صفحات 29-30، محمد سعید اقبال علمی بک ہاؤس چوک اردو بازار لاہور۔ ایڈیشن 2004ء
- 1010ء کی دہائی کی پیدائشیں
- 1017ء کی پیدائشیں
- 1137ء کی وفیات
- بارہویں صدی کے ہندوستانی فلسفی
- بھارتی مصلحین
- بھارتی ہندو روحانی گرو
- سو سالہ بھارتی شخصیات
- ضلع کانچی پورم کی شخصیات
- قدیم ہندوستانی فلسفی
- قرون وسطی کے ہندو مذہبی رہنما
- گیارہویں صدی کے ہندوستانی فلسفی
- ویشنوی سنت
- طويل عمری دعوے
- ہندوستانی ویشنوی شخصیات
- ہندو مصلحین
- ذات پات کے مخالف فعالیت پسند
- برہمن
- برہمن جنہوں نے امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کی