Location via proxy:   [ UP ]  
[Report a bug]   [Manage cookies]                
مندرجات کا رخ کریں

حیات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(زندگی سے رجوع مکرر)
The various levels of the scientific classification system.حیاتساحہ (حیاتیات)مملکت (حیاتیات)قسمہجماعتطبقہخاندان (حیاتیات)جنسنوع
The various levels of the scientific classification system.

Enlarge
Enlarge
حیاتیاتی جماعت بندی کے آٹھ تصنیفیاتی رتبوں کا تراتب (hierarchy)۔ یہاں درمیانی چھوٹے رتبات کو شامل نہیں کیا گیا۔

زندگی کیا ہے؟ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، حیات کی مختلف انداز میں تعریف کرتے ہیں جو اس مضمون میں مختصرا درج تو کی جائیں گی مگر اصل میں اس مضمون کا متن زندگی کی سائنسی توجیہ یا بالفاظ دیگر یوں کہہ لیں کہ اس کی حیاتیاتی اور طبی نقطہ نظر سے وضاحت تک محدود رہے گا۔ نظریات* کرہ ارض پر زندگی کا آغاز تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پرانا ہے۔ یہ آغاز کیسے ہوا یہ بھی ایک سوال ہے۔ جس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ مذہبی مفکرین سے لے کر سائنس دانوں تک سب اہل دانش نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ زندگی کے بارے پیلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زندہ شے خود بخود براہ راست بے جان چیزوں سے جنم لیتی ہے۔ جیسے مثلاً شوربہ خراب ہو کر جراثیم کو جنم دیتا ہے یا گوشت گل سڑ کر کیڑوں کو۔ اس نظریہ کی تردید سترھویں صدی عیسویں میں اٹلی کے سائنس دان فرانسکو ریڈی نے عملی ثبوت مہیاکر کے کی۔ اس نے ثابت کیا کہ کیڑے گوشت کے اندر سے جنم نہیں لیتے، بلکہ اس پر مکھیوں کے دیے گئے انڈوں سے جنم لیتے ہیں۔ اس نظریہ کے حامی یہ ثابت نہیں کر سکے کہ کوئی ایسی چیز جس کے اندر زندہ خلیے نہ ہوں، کیوں کر زندہ خلیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ * ایک اور دلچسپ نظریہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ زمین پر زندگی ستاروں پر سے آئی ہے۔ اس نظریہ کے مشہور مبلغ ایرک وان ڈینی گن ہیں۔ ان کا موقف یہ کہ لاکھوں سال پہلے کوئی مخلوق ( دیوتا ) کسی دوسرے سیارے سے زمین پر آئی، اس نے انسان کو جنم دیا اور واپس چلی گئی۔ اس نے بے شمار سائنسی اور اثری شواہد سے اپنے نظریہ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مگر زندگی کو یا صرف نسل انسانی کو جو کسی سیاروں پر سے آئی ہوئی چیز ثابت کرنے والے مبلغ اس بابت خاموش ہیں کہ اس دوسرے سیارے پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا ۔* اس طرح ایک نظریہ اور بھی ہے جو خصوصی تخلیق کا نظریہ کہلاتا ہے۔ اس کے مطابق روئے زمین پر کروڑوں جانداروں کی قسمیں اپنی اپنی جگہ اسی طرح کسی مافوق الفطرت طاقت یا طاقتوں نے پیدا کیں ہے۔ کسی ایک خالق نے یا ان گنت دیوی دیوتاؤں نے پیدا کیں ہیں۔ یہ سب قسمیں اپنی جگہ غیر مبتدل اور متعین ہیں اور باہمی رشتہ اور تعلق نہیں رکھتی۔ یعنی ہر قسم اپنی اپنی جگہ ہمیشہ کے لیے قائم ہے اور اس میں تبدیلی کی گنجائش یا امکان نہیں ہے۔ اس نظریہ کے حامی بعض بڑے بڑے اور قابل سائنس دان بھی رہے ہیں۔ تاہم سائنس کی نت نئی تحقیقات اور ان پر زبردست تنقید کے نتیجے میں روز بروز جو صداقت زیادہ قوت سے سامنے آئی ہے وہ ارتقا کا نظریہ ہے۔ یعنی زندگی مادے کے اندر موجود اجتماع ضدین کے درمیان باہمی کشمکش کی حرکت کے نتیجے میں ظاہر ہوئی ہے۔ ظہور زندگی کا سبب مادے کے اندر موجود ہے اور مادے کے اربوں سالوں پر پھیلے ارتقا کے نتیجے میں زندگی ظہور آئی ہے ۔

نقطہ آغاز

[ترمیم]

متعدد سائنس دانوں کا خیال ہے قدیم فضاء آکسیجن کے بغیر تھی اور ایک ایسی فضا جو ہائیڈوجن گیس، آبی بخارات، نوشادر گیس اور میتھین گیسوں کے مجموعہ پر مشتمل تھی، برقی اخراج سے دوچار ہوئی اور اس پر بالائے بنفشی (ultraviolet) روشنی پڑی تو اس میں خود بخود ہونے والی آمیزش سے امینو تیزابات پیدا ہوئے۔ یہ پہلے نامیاتی مرکبات تھے جو پروٹین کو جنم دینے کی بنیاد بنے۔ سائنس دان اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فاسفیٹ، خمیرے سادہ مرکبات اور نیوکلیاتی تیزاب، انتہائی قدیم کرہ ارض پر بالائے بنفشی روشنی کے زیر اثر وجود میں آئے تھے۔ خمیرے سادہ مرکبات، آمیزش کے ذریعہ پیچیدہ تر مرکبات بننے میں عمل انگیز کا کام کرتے ہیں اور نیوکلیاتی تیزاب پیدا کرتے ہیں۔ یہ دونوں عوامل زندگی کا موجب ہیں، اس لیے سائنس کے لیے یہ یقین کرنا غیر مناسب نہیں کہ زندگی اربوں سال پہلے کسی ایسے حیاتی محلول میں وجود آئی ہوگی۔ بعد میں ارد گرد کے مرکبات نے اس زندہ وجود کے گرد ایک جھلی تان دی ہوگی۔ اب اس جھلی کے اندر شوربہ کا خود بینی ذرہ کا ایک خلیہ بن گیا ہوگا۔ یہی خلیہ زندگی کا نقطہ آغاز ہے۔ گویا زندگی کا ابتدائی ارتقا ہو گیا تھا، مگر اس کا خلیاتی ارتقا قدیم ترین سمندری پانی میں ہوا ۔ زندگی کی بنیاد پروٹو پلازم ہے جو ایک زندہ مادہ ہے، جو نیم مائع، نیم ٹھوس حالت میں بغیر شکل کے ہوتا ہے۔ اس میں سکڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہ اندرونی طور پر ہم آہنگ ہوتا ہے۔ یہی زندگی کی طبعی بنیاد ہے۔ یہ کاربن، ہائیڈروجن، اوکسیجن، نائٹروجن اور بہت سے کیمیائی عناصر اور پانی کی وافر مقدار پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں چھوٹے چھوٹے خلیے ہوتے ہیں۔ ہر خلیہ اپنے طور پر زندہ اکائی ہوتا ہے اور سب خلیے مل کر ایک زندہ نظام کی ( زندہ وجود کو ) تشکیل کرتے ہیں۔ زندہ اور ایک بے جان وجود میں بنیادی فرق کیمیائی اور خلیاتی ساخت کا ہے۔ جہاں تک کیمائی اجزا کا تعلق ہے تو زندہ پرٹو پلازم میں ایسا کوئی سا کیمیائی جزو زیادہ نہیں ہوتا ہے جو بے جان اجسام میں نہ ہوتا ہے۔ فرق صرف ترتیب کا ہے۔ بغیر اس خاص ترتیب کہ عناصر مل کر کسی بھی غیر زندہ مادی شکل، پتھر، مٹی، ہوا اور پانی کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ جب کہ وہی کیمیائی عناصر ایک دوسری مخصوص ترتیب اور آہنگ میں مجتمع ہو کر زندہ پلٹو پلازم بن جاتے ہیں ۔* زندگی کیا ہے ہے عناصر کا ظہور ترتیب * موت کیا ہے ان عناصر کا پریشان ہونا * زندہ شے میں دوسری چیزوں کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جو بے جان اشیاء کو جذب کرکے ان کی کیمیائی ترتیب بدل کر انھیں زندہ وجود میں ڈھال دیتی ہے۔ جیسے انسان کھانا ہضم کر کے خون، ہڈی، عضلات کی شکل میں ڈھال دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ زندہ شے افزائش نسل کی صلاحیت رکھتی ہے، جو بے جان چیزوں میں نہیں ہوتی ہے۔ زندہ چیز کیمیائی طور پر ساکن نہیں بلکہ متحرک اور ہر دم متغیر ہے۔ جیسے انسانی جسم میں خون کے ذرات بنتے اور مرتے ہیں ۔[1]

مختلف تعریفیں

[ترمیم]

علمی تعریف

[ترمیم]

حیاتیات (biology) کے نقطہ نظر سے زندگی، تمامتر حیوی (vital) مظاہر کے ایک جسم میں جمع ہوجانے کا نام ہے۔ اور چونکہ تمام جانداروں کی بنیادی اکائی(main unit ) خلیہ (cell)ہوتی ہے لہذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ تمام افعال(functions) جو ایک خلیہ (cell)انجام دیتا ہے، مل کر حیات کہلاتے ہیں۔ بات کو مزید گہرائی میں لے جایا جائے تو حیاتی کیمیاء یہ بتاتی ہے کہ تمام خلیات بھی مزید چھوٹے سالمات یا molecules سے مل کر بنتے ہیں جو ایک خاص ترتیب میں آجائیں تو وہ افعال انجام دیتے ہیں کہ جو کوئی اور سالماتی ترتیب (غیرنامیاتی ترتیب) نہیں دے سکتی اور یہی سالمات کا آپس میں مربوط ہونا زندگی ہے۔ پھر بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ سالمات کی بنیادی اکائی چونکہ جوہر (atom) ہیں اور جوہر کائنات میں پائے جانے والے مادے کی خالص شکل، عنصر (element)، کا وہ چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے جو گو بنیادی ذرہ تو نہیں ہوتا مگر اس عنصر کے تمام خواص کو اپنے اندر رکھتا ہے جس سے اس کا تعلق ہو اور یہاں جوہر کی منزل پر آ کر اگر ان سائنسی معلومات کے گھوڑوں کو واپس الٹا زندگی کی طرف دوڑایا جائے تو ان جوہروں سے حیات تک کا سفر مختصرا یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ؛ جوہر(یا عناصر) آپس میں ایک خاص ترتیب پاکر سالمات (یا مرکب، بطور خاص نامیاتی مرکب) بناتے ہیں اور پھر یہ سالمات آپس میں مل کر خلیات بناتے ہیں، خلیات ایسے اجسام ہوتے ہیں کہ جو بے شمار پیچیدہ کیمیائی تعملات کو آپس میں منظم طریقے سے چلا سکتے ہیں اور انہی تعملات کا ایک نتیجہ خلیات کے اندر ایک برقی جُہد (electrical potential) کا پیدا ہوجانا ہے، یہ جہد(struggle) اور دیگر تعملات مل کر خلیے کے اندرونی اور بیرونی ماحول کے درمیان میں ایک استتباب (homeostasis) کی کیفیت پیدا کرکہ خلیہ کو زندگی بخشتے ہیں اور ثانوی نتیجہ کے طور پر اس جاندار (پودا یا جانور) کو بھی جس کے یہ خلیات ہوں۔

تعریف بہ زبان سہل

[ترمیم]

سادہ الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ کوئی جسم جو روزمرہ زندگی کے ایسے افعال انجام دیتا ہے کہ جو وہ اجسام جن کو غیر جاندار کہا جاتا ہے انجام نہیں دے سکتے، مثلا حرکت، غذا کھانا، اپنی نسل پیدا کرنا، نشونما وغیرہ، تو وہ زندہ کہلاتا ہے۔ بنیادی طور پر چند ایسے خواص ہوتے ہیں جو صرف حیاتی اجسام سے ہی منسلک کیے جا سکتے ہیں، ان میں اوپر بیان کردہ افعال کے ساتھ ساتھ حیاتی تنظیم (organization) اور ردعمل (irritability) بھی شامل ہیں۔ کرہ ارض پر پائے جانے والے جانداروں میں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ایک بات مشترک ہے، وہ یہ کہ یہ تمام بنیادی طور پر عناصر سے مل کر بنے ہیں اور ان میں کاربن، آکسیجن، ہائیڈروجن اور نائٹروجن وغیرہ شامل ہیں۔ زندگی کی یہ تعریف نامیاتی حیات کے لیے تو مکمل طور پر قابل عمل ہے مگر چند صورتیں ایسی بھی ہیں کہ جہاں اس تعریف کا دائرہ وسیع کرنا پڑتا ہے مثلا وائرس اور دیگر متبادل حیاتیات کے مظاہر۔

مابعدالطبیعیاتی تعریف

[ترمیم]

مابعدالطبیعیات یا metaphysics میں زندگی کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ؛ حیات، دراصل عمل اخصاب (fertilization) سے پر کسی جسم میں پڑنے والی روح کے واقع ہونے سے لے کر موت پر اس روح کے اس جسم سے نکل جانے تک کا وقفہ ہوتا ہے۔ اخصاب، نر اور مادہ کے تولیدی خلیات کے ملاپ کو کہا جاتا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر

[ترمیم]

زندگی کی علمی تعریف کے بیان میں ذکر آچکا ہے کہ زندگی بنیادی طور پر جوہروں (بالفاظ دیگر عناصر) سے مل کر بنی ہے اور یہ بات عیاں ہے کہ مٹی یعنی گِل اور پانی، خواہ وہ سمندر میں ہو، پہاڑوں پر یا خشکی پر تمام عناصر اسی میں پائے جاتے ہیں (گو ان کا تناسب مختلف جگہوں پر مختلف ہو سکتا ہے)۔ اور مٹی اور پانی میں ان عناصر یا جوہروں کی موجودگی، مٹی کو اس قابل بناتی ہے کہ اگر مناسب حالات مہیا کیے جائیں تو اس سے نیکلیوٹائیڈ اور رائبو مرکزائی تیزاب کی تخلیق کے عمل کو تحریک کیا جا سکتا ہے (جریدہ سائنٹیفک امریکن میں شائع ہونے والا مارٹن اور فجی کاوا کا تحقیقی مقالہ)

قرآن میں متعدد آیات میں زندگی کی بناوٹ میں مٹی اور پانی کے شامل ہونے کا ذکر وضاحت سے آیا ہے، حوالے کے طور پر چھٹی سورت الانعام کی آیت دو ذیل میں درج کی جا رہی ہے۔

وہی تو ہے جس نے پیدا کیا تم کو مٹی سے پھر مقرر کردی (زندگی کی) ایک مدت اور ایک (دوسری) مدت (قیامت) اور بھی ہے جو مقرر ہے اللہ کے نزدیک اس کے باوجود تم شک میں مبتلا ہو۔

  • مزید آیات
    • سورت السجدہ آیات پانچ تا نو
    • سورت الرحمن آیت چودہ

مظاہر ِحیات

[ترمیم]

گو کہ زندگی کے مختلف نقطۂ نظر کے حوالے سے حیات کی بھی مختلف تعریفیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر چند ایسے بنیادی اور حیاتیاتی خواص بھی موجود ہیں کہ جو بلاشک و شبہہ صرف اور صرف حیات میں ہی ظاہر ہوتے ہیں۔

  • استِتباب، یعنی خلیات کے اندر بالفاظ دیگر جاندار میں ہونے والے کیمیائی تعملات (جن کو مجموعی طور پر استِقلاب کہا جاتا ہے) میں توازن جس کی وجہ سے درون خلیہ (intra cellular) اور بیرون خلیہ (extra cellular) فضاؤں میں ایک موزوں تناسب قائم ہوتا ہے اور اندرونی ماحول میں اسی تناسب کو استتباب (homeostasis) کہا جاتا ہے۔
  • منظمہ، یعنی حیات کی بنیادی اکائیوں (خلیات) کی ایک منظم ترتیب، اس کو منظمہ یا organization کہا جاتا ہے۔
  • استِقلاب، یعنی جاندار میں ہونے والے کیمیائی تعملات جو غیرنامیاتی اور نامیاتی مرکبات کے ذریعے نئے مرکبات تالیف کرتے ہیں اور اس دوران میں توانائی بھی تیار ہوتی ہے جو حیات کے لیے لازمی ہے، اس عمل کو استقلاب یا metabolism کہتے ہیں۔
  • اس کے علاوہ بھی کثیر التعداد مظاہر ایسے ہیں جو زندگی کے ساتھ منسلک ہیں مثلا، نشونما، تلاوم یا adaptation، تولید، تحریک اور حرکت منعکسہ وغیرہ۔ ان کی تفصیل کے لیے ان کے اپنے صفحات مخصوص ہیں۔

بیرونی روابط

[ترمیم]
  1. یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور