سورہ الدخان
سورة الدخان al-Dukhān سورت الدخان | |
---|---|
----
| |
دور نزول | مکی |
عددِ پارہ | 25 واں پارہ |
اعداد و شمار | 3 رکوع, 59 آیات, 346 الفاظ, 1439 حروف |
قرآن مقدس |
---|
متعلقہ مضامین |
قرآن مجید کی 44 ویں سورت جس میں 59 آیات اور 3 رکوع ہیں۔
نام
آیت نمبر 10 کے لفظ دخان کو اس سورت کا عنوان بنایا گیا ہے یعنی یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ دخان وارد ہوا ہے۔
زمانۂ نزول
اس کا زمانۂ نزول کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورۂ زخرف اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں البتہ یہ ان سے کچھ متاخر ہے۔ تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب کفار مکہ کی مخالفانہ روش شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا کی کہ خدایا، یوسف علیہ السلام کے قحط جیسے ایک قحط سے میری مدد فرما۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خیال یہ تھا کہ جب ان لوگوں پر مصیبت پڑے گی تو انھیں خدا یاد آئے گا اور ان کے دل نصیحت قبول کرنے کے لیے نرم پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالٰیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور سارے علاقے میں ایسے زور کا قحط پڑا کہ لوگ بلبلا اٹھے۔ آخر کار بعض سرداران قریش، جن میں حضرت عبداللہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بن مسعود نے خاص طور پو ابو سفیان کا نام لیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے درخواست کی کہ اپنی قوم کو اس بلا سے نجات دلانے کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ یہی موقع ہے جب اللہ تعالٰیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
موضوع اور مباحث
اس موقع پر کفار مکہ کی فہمائش اور تنبیہ کے لیے جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل فرمایا گیا اس کی تمہید چند اہم مباحث پر مشتمل ہے :
اول یہ کہ تم لوگ اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تصنیف سمجھنے میں غلطی کر رہے ہو۔ یہ کتاب تو اپنی ذات میں خود اس امر کی بین شہادت ہے کہ یہ کسی انسان کی نہیں بلکہ خداوندِ عالم کی کتاب ہے۔
دوسرے یہ کہ تم اس کتاب کی قدر و قیمت سمجھنے میں بھی غلطی کر رہے ہو۔ وہ گھڑی انتہائی مبارک گھڑی تھی جب اللہ تعالٰیٰ نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر تمھارے ہاں اپنا رسول بھیجنے اور اپنی کتاب نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
تیسرے یہ کہ تم اپنی نادانی سے اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ اس رسول اور اس کتاب سے لڑ کر تم جیت جاؤ گے حالانکہ اس رسول کی بعثت اور اس کتاب کی تنزیل اُس ساعتِ خاص میں ہوئی ہے جب اللہ تعالٰیٰ قسمتوں کے فیصلے فرمایا کرتا ہے۔ اور اللہ کے فیصلے بودے نہیں ہوتے جس کا جی چاہے انھیں بدل ڈالے، نہ وہ کسی جہالت و نادانی پر مبنی ہوتے ہیں کہ ان میں غلطی اور خامی کا کوئی احتمال ہو۔ وہ تو اس فرمانروائے کائنات کے پختہ اور اٹل فیصلے ہوتے ہیں جو سمیع و علیم اور حکیم ہے۔ ان سے لڑنا کوئی کھیل نہیں ہے۔
چوتھے یہ کہ اللہ کو تم خود بھی زمین و آسمان اور کائنات کی ہر چیز کا مالک پروردگار مانتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ زندگی و موت اسی کے اختیار میں ہے۔ مگر اس کے باوجود تمھیں دوسروں کو معبود بنانے پر اصرار ہے اور اس کے لیے حجت تمھارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ باپ دادا کے وقتوں سے یہی کام ہوتا چلا آ رہا ہے حالانکہ اگر کوئی شخص شعور کے ساتھ یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ ہی مالک و پروردگار اور زندگی و موت کا مختار ہے تو اسے کبھی یہ شبہ تک لاحق نہیں ہو سکتا کہ معبود ہونے کے مستحق اس کے سوا اور اس کے ساتھ دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔ تمھارے باپ دادا نے اگر یہ حماقت کی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ تم بھی آنکھیں بند کر کے اسی کا ارتکاب کرتے چلے جاؤ۔ حقیقت میں تو ان کا رب بھی اکیلا وہی خدا تھا جو تمھارا رب ہے، وار انھیں بھی اسی ایک کی بندگی کرنی چاہیے تھی جس کی بندگی تمھیں کرنی چاہیے۔
پانچویں یہ کہ اللہ کی ربوبیت و رحمت کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ تمھارا پیٹ پالے بلکہ یہ بھی ہے کہ تمھاری رہنمائی کا انتظام کرے۔ اسی رہنمائی کے لیے اس نے رسول بھیجا ہے اور کتاب نازل کی ہے۔
اس تمہید کے بعد اس قحط کے معاملے کو لیا گیا ہے جو اس وقت در پیش تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ یہ قحط نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی استدعا پر آیا تھا اور حضور نے اس کے لیے دعا اس خیال سے کی تھی کہ مصیبت پڑے گی تو کفار کی اکڑی ہوئی گردنیں ڈھیلی پڑ جائیں گی، شاید کہ پھر حرف نصیحت ان پر کارگر ہو۔ یہ توقع اس وقت کسی حد تک پوری ہوتی نظر آ رہی تھی کیونکہ بڑے بڑے دشمنان حق کال کے مارے پکار اٹھے تھے کہ پروردگار، یہ عذاب ہم پر سے ٹال دے تو ہم ایمان لے آغیں گے۔ اس پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا کہ ایسی مصیبتوں سے یہ لوگ کہاں سبق لینے والے ہیں۔ انھوں نے جب اس رسول کی طرف سے منہ موڑ لیا جس کی زندگی سے، جس کے کردار سے اور جس کے کام اور کلام سے علانیہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ یقیناً خدا کا رسول ہے، تو اب محض ایک قحط ان کی غفلت کیسے دور کر دے گا۔ دوسری طرف کفار کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ تم بالکل جھوٹ کہتے ہو کہ یہ عذاب تم پر سے ٹال دیا جائے تو تم ایمان لے آؤ گے۔ ہم اس عذاب کو ہٹائے دیتے ہیں، ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ تم اپنے اس وعدے میں کتنے سچے ہو۔ تمھارے سر پر تو شامت کھیل رہی ہے۔ تم ایک بڑی ضرب مانگ رہے ہو، ہلکی چوٹوں سے تمھارا دماغ درست نہیں ہوگا۔
اسی سلسلے میں آگے چل کر فرعون اور اس کی قوم کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو بھی ٹھیک یہی آزمائش پیش آئی تھی جس سے اب کفار قریش کے سرداروں کا سابقہ پڑا ہے۔ ان کے پاس بھی ایسا ہی ایک معزز رسول آیا تھا۔ انھوں نے بھی وہ صریح علامات اور نشانیاں دیکھ لی تھیں جن سے اس کا مامور من اللہ ہونا صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ بھی نشانی پر نشانی دیکھتے چلے گئے مگر اپنی ضد سے باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ آخر کار رسول کی جان لینے کے درپے ہو گئے اور نتیجہ وہ کچھ دیکھا جو ہمیشہ کے لیے سامان عبرت بن گیا۔
اس کے بعد دوسرا موضوع آخرت کا لیا گیا ہے جس سے کفار مکہ کو شدت کے ساتھ انکار تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کر آتے نہیں دیکھا ہے، تم اگر دوسری زندگی کے دعوے میں سچے ہو تو اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو۔ اس کے جواب میں عقیدۂ آخرت کی دو دلیلیں مختصر طور پر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اس عقیدے کا انکار ہمیشہ اخلاق کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے، بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے اور حکیم کا کوئی کام عبث نہیں ہوتا۔ پھر کفار کے اس مطالبہ کا کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو، یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ کام روز روز ہر ایک کے مطالبے پر نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے اللہ نے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جب وہ تمام بنی نوع انسانی کو بیک وقت جمع کرے گا اور اپنی عدالت میں ان کا محاسبہ فرمائے گا۔ اس وقت کی اگر کسی کو فکر کرنی ہو تو کرلے، کیونکہ وہاں کوئی نہ اپنے زور پر بچ سکے گا نہ کسی کے بچائے بچے گا۔
اللہ کی اس عدالت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ وہاں مجرم قرار پائيں گے ان کا انجام کیا ہوگا اور جو وہاں سے کامیاب ہو کر نکلیں گے وہ کیا انعام پائیں گے۔ پھر یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ تم لوگوں کو سمجھانے کے لیے یہ قرآن صاف سیدھی زبان اور تمھاری اپنی زبان میں نازل کر دیا گیا ہے۔ اب اگر تم سمجھانے سے نہیں سمجھتے اور انجام بد ہی دیکھنے پر مصر ہو تو انتظار کرو، ہمارا نبی بھی منتظر ہے، جو کچھ ہونا ہے وہ اپنے وقت پر سامنے آ جائے گا۔