سورہ الزلزال
اعداد و شمار | |
---|---|
عددِ سورت | 99 |
عددِ پارہ | 30 |
تعداد آیات | 8 |
گذشتہ | البینہ |
آئندہ | العادیات |
نام
پہلی آیت کے لفظ زلزالھا سے ماخوذ ہے۔ زمانۂ نزول اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ ابن مسعود رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ، عطاء، جابر اور مجاہد کہتے ہیں کہ یہ مکی ہے اور ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا بھی ایک قول اس کی تائید کرتا ہے۔ بخلاف اس کے قتادہ اور مقاتل کہتے ہیں کہ یہ مدنی ہے اور ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ سے بھی دوسرا قول اس کے مدنی ہونے کی تائید میں نقل ہوا ہے۔ اس کے مدنی ہونے پر حضرت ابو سعید خدری رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی اُس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن ابی حاتم نے ان سے نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثال ذرۃ شرا یرہ تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں اپنا عمل دیکھنے والا ہوں؟ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہاں، میں نے عرض کیا "یہ بڑے بڑے گناہ؟" آپ نے جواب دیا "ہاں " میں نے عرض کیا "اور یہ چھوٹے چھوٹے گناہ بھی؟" حضور نے فرمایا ہاں۔ اس پر میں نے کہا "پھر تو میں مارا گیا؟" حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "خوش ہو جاؤ اے ابو سعید، کیونکہ ہر نیکی اپنے جیسی دس نیکیوں کے برابر ہوگی۔ " اس حدیث سے اس سورت کے مدنی ہونے پر استدلال کی بنا یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری مدینے کے رہنے والے تھے اور غزوۂ احد کے بعد سن بلوغ کو پہنچے۔ اس لیے اگر یہ سورت ان کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی، جیسا کہ ان کے بیان سے ظاہر ہے، تو اسے مدنی ہونا چاہیے لیکن صحابہ اور تابعین کا جو طریقہ آیات اور سورتوں کی شان نزول کے بارے میں تھا، اس کی تشریح سورۂ دہر کے مضمون میں بیان کی جا چکی ہے، اس لیے کسی صحابی کا یہ کہنا ہے کہ یہ آیت فلاں موقع پر نازل ہوئي، اس بات کا قطعی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا نزول اسی وقت ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت ابو سعید نے ہوش سنبھالنے کے بعد جب پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ سورت سنی ہو اس وقت اس کے آخری حصے سے خوف زدہ ہو کر انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وہ سوالات کیے ہوں جو اوپر درج کیے گئے ہیں اور اس واقعہ کو انھوں نے اس طرح بیان کیا ہو کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ عرض کیا۔ اگر یہ روایت سامنے نہ ہو تو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے والا ہر شخص یہی محسوس کرے گا کہ یہ مکی سورت ہے، بلکہ اس کے مضمون اور اندازِ بیان سے تو اس کو یہ محسوس ہوگا کہ یہ مکہ کے بھی اس ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی جب نہایت مختصر اور انتہائی دلنشین طریقہ سے اسلام کے بنیادی عقائد لوگوں کے سامنے پیش کیے جا رہے تھے۔ موضوع اور مضمون اس کا موضوع ہے موت کے بعد دوسری زندگی اور اس میں ان سب اعمال کا پورا کچا چٹھا انسان کے سامنے آ جانا جو اس نے دنیا میں کیے تھے۔ سب سے پہلے تین مختصر تقریروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی کس طرح واقع ہوگی اور وہ انسان کے لیے کیسی حیران کن ہوگی۔ پھر دو فقروں میں بتایا گیا ہے کہ یہی زمین جس پر رہ کر انسان نے بے فکری کے ساتھ ہر طرح کے اعمال کیے ہیں اور جس کے متعلق کبھی اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ یہ بے جان چیز کسی وقت اس کے افعال کی گواہی دے گی، اس روز اللہ تعالٰی کے حکم سے بول پڑے گی اور ایک ایک انسان کے متعلق یہ بیان کر دے گی کہ کس وقت کہاں اس نے کیا کام کیا تھا۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اس دن زمین کے گوشے گوشے سے انسان گروہ در گروہ اپنے مرقدوں سے نکل نکل کر آئیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں اور اعمال کی یہ پیشی ایسی مکمل اور مفصل ہوگی کہ کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہ رہ جائے گی جو سامنے نہ آ جائے۔