نخاع
حرام مغز | |
---|---|
حرام مغز (سرخ رنگ میں) | |
تفصیلات | |
شناخت کاران | |
لاطینی | medulla spinalis |
TA | A14.1.02.001 |
FMA | 7647 |
اصطلاحات تشریح الاعضا |
نخاع، حرام مغز یا حبل شوکی ایک لمبا اور باریک ٹیوب ہوتا ہے جو حقیقت میں اعصابی ٹیشوز (nervous tissue) کا مجوعہ ہوتا ہے۔ نخاع یا حرام مغز ریڑھ کی ہڈی کے اندر شروع سے وسط تک پھیلا ہوتا ہے۔ حرام مغز اور دماغ مل کر ہی مرکزی اعصابی نظام بناتے ہیں۔ مردوں میں حرام مغز تقریبا 45 سینٹی میٹر (18 انچ) طویل ہوتا ہے اور خواتین میں 43 سینٹی میٹر (17 انچ) پایا جاتا ہے۔
اہمیت
[ترمیم]حرام مغز کا خاص تعلق اضطراری اعمال (Reflex Actions) سے ہے لیکن اس کا واسطہ اور رابطہ دماغ سے بھی رہتا ہے۔ جوان افراد میں اس کی لمبائی 16 سے 20انچ تک ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر حرام مغز کے دو اہم کام ہیں:
- دماغ کو پیغامات بھیجتا ہے اور وصول کرتا ہے۔
- اضطراری اعمال کے مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔
اگر کہیں گھٹنے پر ضرب لگ جاتی ہے تو رد عمل کے طور پر پاؤں میں ایک جھٹکا سا پیدا ہوجاتا ہے، یہ ایک اضطراری عمل ہے یعنی اگر ہم کوئی کام کرتے ہیں تو کہیں کام ہم سوچ کر کرتے ہیں لیکن گھٹنے پر جب ضرب لگتی ہے تو پھر سوچ کے بغیر ہے خود بخود انسان کی پاؤں پیچھے ہٹ جاتی ہے یہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہ صلاحیت حرام مغز میں ہوتا ہے جو دماغ سے اجازت لیے بغیر ہی سیدھا جسم کے اعضاء کو پیغام پہنچا دیتا ہے اور ہم وہ اعضاء فوراََ ہٹا دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایک شخص سو رہا ہے اور اس کے پاؤں میں سوئی چھبوئی جائے تو وہ نیند کی حالت میں ہی فوراََ پاؤں کھینچ لیتا ہے۔ اس بات پر غور کریں کہ ہم سوچے سمجھے بغیر ہی پاؤں کھینچ لیتے ہیں پھر بعد میں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پاؤں میں سوئی چھبوئی گئی تھی اس لیے پاؤں خود پیچھے ہو گیا۔ ان دونوں مثالوں میں گھٹنے کا جھٹکا اور پاؤں کا کھینچنا یہ اضطراری عمل ہے جو حرام مغز سر انجام دیتا ہے۔
اضطراری عمل کا ایک اور عام مثال یہ ہے کہ آپ جب کسی گرم لوہے اور دوسرے دھات کو ہاتھ سے پکڑتے ہیں تو سوچے سمجھے بغیر ہی فوراََ ہاتھ ہٹالیتے ہیں۔
لیکن یہاں پر ایک بات یاد رکھیے کہ اضطراری عمل کے لیے حرام مغز کی خود مختاری کے باوجود اس پر دماغ کی بالائی حکومت رہتی ہے اس کا ایک پیچیدہ مثال یہ ہے کہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کا کرتب دکھانے والے کے پاؤں میں کوئی چیز چبھ جائے تو اضطراری عمل کے تحت اسے پاؤں ایک دم ہٹالینا چاہیے لیکن چونکہ ایسا کرنے میں جان کا خطرہ لاحق ہوتا ہے (کیونکہ وہ ایک رسی پر چل رہا ہوتا ہے اور اگر وہ پاؤں ہٹاتا ہے تو نیچے گر کر اس کی جان جا سکتی ہے) لہذا دماغ اپنا بالائی اختیار استعمال کرتے ہوئے حرام مغز کے حکم کو نظر انداز کرلیتا ہے اور اپنا حکم نافذ کرتا ہے کہ کرتب دکھانے والا اپنا پاؤں نہ ہٹائے اور ارادی طور پر اپنا توازن برقرار رکھے تاکہ اس کی جان بچ جائے۔ لیکن اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو پھر حرام مغز ہی اضطراری عمل کے اختیار کو استعمال کرکے فورا پاؤں ہٹالے گا۔