معزز صارفین،

یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 



370
5125
روح سے کر  کلام  دھیرے  سے
کر   خودی   بے  نیام  دھیرے  سے
دل کی خواہش اگر  بڑھے حد  سے
کھینچ    لینا   زمام   دھیرے  سے
حسن  سیرت  سے  کر  لیا  اُس نے
میرے  دل  میں  مقام دھیرے  سے

چپکے چپکے جسے پیار کرتے رہے
کچھ بھی کہنے سے ہم صدیوں ڈرتے رہے
آؤ اس کی سنائیں تمہیں داستاں
جس کی خاطر تھے ہم بھی سنورتے رہے
ایک دن بے حجابانہ دیکھا اسے
دل میں جزبات دن بھر نکھرتے رہے

3
میں کہاں اتنا خوبصورت تھا
آپ کی آنکھوں نے سنوارا مجھے
کون سے چاند سے ملاتا ہے
شبِ تاریک میں ستارہ مجھے
میں مکمل غزل کا پیکر ہوں
ہے تری ذات استعارہ مجھے

0
6
معتکف اہلِ ایماں کی مانند
دل کے گوشے میں اک تمنا ہے
اشک دیتے ہیں کتنی بینائی
دردِ دل کتنا روح افزا ہے
تری صورت بتا رہی ہے مجھے
تو کسی کے لیے تڑپتا ہے

0
5
دلِ ناتواں کو یہ کیسے بتاؤں
فدا ہے وہ جس پر وہی بے وفا ہے
نہیں رازداں ہے کوئی اس جہاں میں
حقیقت ہے خاکی سبھی بے وفاہے
اےپیارےیہ کُن کی ہے محتاج دنیا
یہاں دل لگی تو جفا پے جفا ہے

7
کر گئی تیری یاد اداس مجھے
کوئی خود سے لگا ہے پاس مجھے
جب بھی ہوتا ہوں فکر سے آذاد
باندھ لیتی ہے تیری آس مجھے
اب بھی آتی بدن سے ہے میرے
آپ کے جسم کی بو باس مجھے

0
3
کوئی تلواریں لہرا کر
ڈرامے کوئی بنوا کر
کوئی بس دھمکیاں دے کر
ترانے کوئی گا گا کر
حفاظت اہل اقصیٰ کی یہاں پر کر رہے ہیں سب

0
2
کوئی تلواریں لہرا کر
ڈرامے کوئی بنوا کر
کوئی بس دھمکیاں دے کر
ترانے کوئی گا گا کر
حفاظت اہل اقصیٰ کی یہاں پر کر رہے ہیں سب

0
3
زندگی کے سروں کی لے اپنی
چنگ اپنا ہے ان کا نے اپنی
لے کے پھرتا ہوں سوختہ میں جگر
کر گئی کام اپنا مے اپنی
دسترس اپنی کب وہاں تک ہے
بات ہوتی جہاں ہے طے اپنی

0
4
غزل
رشتے ناطے وفا کے ہوتے ہیں
اور جھگڑے انا کے ہوتے ہیں
آپ آتی ہو صُبح دَم یا پھر
جھونکے بادِ صبا کے ہوتے ہیں
تم سجاتی ہو دست و بازو پر

0
8
عثمان پر جو لعنتی تہمت لگائے گا
وہ مستحق ہے نار کا دوزخ میں جائے گا
شیطان کا ہے چیلا وہ قیدی ہے نفس کا
کوئی جحیم سے نہ اسے پھر بچائے گا
کر کے دراز ان پہ زباں اپنی بد زبان
محشر میں منہ نبی کو وہ کیسے دکھائے گا

0
7
گرچہ رشتہ ہے آگ پانی کا
پھر بھی امکان ہے کہانی کا
سوچ تیری ہے وقت سے آگے
میں ہوں قصہ گھڑی پرانی کا
کیا تعلق نئی جوانی سے
میری ڈھلتی ہوئی جوانی کا

0
3
تجھے نفرت تو مجھ سے گو نہیں ہے
مگر پھر بھی محبت تو نہیں ہے
نہ لہجے میں وہ شوخی ہے ترے اب
شرارت آنکھ میں بھی، وہ نہیں ہے
ترے کردار کی بھی اب ضرورت
محبت کے فسانے کو نہیں ہے

0
5
میں کہتا ہوں یوں
تم کہتی ہو کیوں
کام رہ جا تا ہے
پھر سب جوں کا توں

9
ولیوں کے سلطاں علی مشکل کشا
حیدرِ کرار وہ شیرِ خدا
رتبہ ہے اصحاب میں جن کا جدا
وہ علی ہیں فیض یابِ مصطفی
جو گدا کی جھولی بھرتے ہیں سدا
وہ علی ہیں منبعِ جود و سخا

0
3
چو سو نکلا ہے حیا کا ہی جنازہ
پھیلی ہے یاں بے حیائی بے تحاشہ
مرد و عورت کا لباس اتنا ہے آدھا
جسم چھپتا کم تو دکھتا ہے زیادہ
شاہراہوں میں ،سبھی بازاروں میں بھی
ہر طرف بس چل رہا ہے یہ تماشہ

0
2
جانتا ہوں کہ یادیں ہیں غم کا سبب
پھر بھی یادوں کے بوسے خوشی سے لیے
چوں چرا لب پہ آنے دیا ہی نہیں
آپ غم دے دیے اور ہم لے لیے
روح کی قدردانی نہ ہو آپ سے
زلف و رخسار و لب سے مگر کھیلیے

0
6
معزز صارفین،یہاں پرکمنٹس میں آپ اس سائٹ کے بارے میں ہمیں اپنے مشوروں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ 

370
5125
بعض اوقات شاعر الف کا ایصال پچھلے لفظ کیساتھ ایسے کرتے ہیں کہ   پچھلے لفظ کے آخری حرف کی آواز الف میں ضم ہو جاتی ہے۔

27
4566